25 اگست 2025 - 01:08
امریکہ الجولانی حکومت کی کایا پلٹ کا خواہاں!

امریکہ اور اسرائیل نے جو چاہا سابق الجولانی اور موجود الشرع نے انجام دیا، شام کے اثاثے تباہ و برباد ہوتے دیکھے، جنوبی شام کا علاقہ صہیونیوں کے سپرد کیا، الجولان کو صہیونی ریاست کے سپرد کیا، اس کے مصالحت کے لئے مذاکرات کئے، حزب اللہ اور ایران کو اپنا دشمن قرار دیا جیسا کہ یہ دونوں صہیونی ریاست کے دشمن بھی ہیں، وزارت دفاع اور صدارتی محل پر صہیونی بمباری کو خوشی سے قبول کر لیا، اور اب گویا اس کے استعمال کی میعاد ختم ہو رہی ہے، چنانچہ اب وہ شام کا آٹھ ماہی نظام بدلنے کی سوچ رہا ہے۔

بین الاقوامی اہل بیت (ع) نیوز ایجنسی (ابنا) کی رپورٹ کے مطابق، اگرچہ شامی باغیوں کے لیڈر الجولانی نے بارہا امریکہ اور صہیونی ریاست سے اپنی وابستگی کا اعلان کیا ہے اور ان کے تمام مطالبات کو بغیر کسی احتجاج اور تنقید کے، عملی جامہ پہنایا ہے، اب جب کہ یہ سب کچھ ہو چکا ہے، امریکیوں کا دعویٰ ہے کہ "شام کے عوام کو حکومت کی تبدیلی کی ضرورت ہے!!"

امریکی ایلچی تھامس باراک نے اتوار کے روز اپنے بیان میں کہہ دیا کہ واشنگٹن کو شام پر حکمران موجودہ [الجولانی] نظام کی مزید کوئی ضرورت نہیں ہے۔

امریکہ جو شروع سے ہی شام کی بندربانٹ کے منصوبے پر کام کرتا آیا ہے، اب بھی اسی منصوبے کے تحت آگ بڑھ رہا ہے؛ یوں کہ باراک نے دعویٰ کیا ہے کہ السویداء صوبے میں پرتشدد واقعات کے بعد، شام کے عوام کو 'انتہائی مرکوز نظام' کے 'متبادل آپشنز' پر غور کرنا چاہئے۔

امریکہ نے الجولانی سے حکومت کی کایا پلٹ کا خواہاں!

ابو محمد الجولانی اور ان کے ماتحت باغیوں نے ـ جو ترکی، امریکہ، صہیونی ریاست اور یورپی ممالک نیز قطر، سعودیہ اور امارات کی مدد سے ـ بشار الاسد کی حکومت کا تختہ الٹ کر شام پر قبضہ کئے بیٹھے ہیں، ـ کچھ عرصہ پہلے السویداء پر چڑھائی کر کے دروزی اقلیت پر چڑھ دوڑے تھے، جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں جانیں ضائع ہوئیں۔ اس تصادم میں دوسری طرف سے یہودی ریاست نے مداخلت کرکے الجولانی فورسز میں سے بے شمار افراد کو ہلاک کر دیا۔

ان تصادمات کے نتیجے میں، امریکہ اور اسرائیل نے دروزیوں کی حمایت کے بہانے مداخلت کی اور اپنے خاص عزائم کی رو سے، الجولانی باغیوں کو دروزیوں کے خلاف کاروائیاں کرنے سے روک لیا۔

اس سے پہلے، الجولانی کی حکومت نے مغربی شام، جہاں زیادہ تر علوی آباد ہیں، پر چڑھائی کر کے اس خطے کے بہت سے لوگوں کو ہلاک کیا تھا اور اب بھی اس اقلیت کے دبانے کا کام باغیوں کے ایجنڈے میں شامل ہے لیکن امریکہ اور صہیونی ریاست نے علویوں کو کچلنے کی مکمل اجازت دی ہے اور ان کی سرکوبی سے اگر امریکیوں اور صہیونیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا بلکہ شاید وہ خود بھی اس کے خواہاں ہوں!

وفاقی نظام یا شام کی تقسیم؟

امریکی ایلچی تھامس باراک مزید کہا: "جس چیز کی ضرورت ہے وہ ایک مکمل وفاقی نظام نہیں ہے، بلکہ ایک ایسی حکومت ہے جس میں کم پابندیاں ہوں؛ جو یہ ضمانت دے کہ تمام گروہ اپنی شناخت، ثقافت اور زبان کو کسی قسم کے نظریاتی خطرے یا مذہبی انتہا پسندی کے بغیر محفوظ رکھ سکیں۔"

امریکہ نے الجولانی سے حکومت کی کایا پلٹ کا خواہاں!

وفاقیت ایک قسم کا سیاسی نظام ہے جس میں عام طور پر حکومت کی دو سطحیں ہوتی ہیں؛ ایک مرکزی سطح اور دوسری علاقائی اداروں کی سطح؛ جن کی بنیاد پر ملک تقسیم کیا گیا ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں علاقوں، ریاستوں، صوبوں اور اس طرح کی دیگر تقسیمات کی مثال دی جا سکتی ہے۔

عام طور پر وفاقیت کا مقصد یہ ہے کہ اس کے ذریعے یہ مختلف گروہ مشترکہ مفادات کی بنیاد پر طاقت اور اختیارات تقسیم کریں، لیکن ساتھ ہی ملک کے مرکزی اداروں اور مرکزی حکومت کے پاس بھی ایک سطح کا اقتدار باقی رہے۔

وفاقیت کے نظریہ کئی بار نیم فوجی کُردی دستوں، ـ جنہیں شامی جمہوری قوتیں (SDF) کہا جاتا ہے، ـ نے پیش کیا ہے۔ یہ کرد امریکی حمایت یافتہ ہیں اور شام کے مشرق اور شمال مشرق میں اپنے زیر قبضہ علاقوں میں خود مختاری قائم کرنا چاہتے ہیں۔

اس سے پہلے، الجولانی کے ماتحت باغی کُردوں کے خودمختاری کے منصوبے کا مقابلہ کرنے کے لئے،  حلب کے ارد گرد اور مشرقی شام میں ان عناصر سے لڑے تھے۔ الجولانی گروپ (ہیئت تحریر الشام) کا کہنا ہے کہ وفاقی نظام، کردوں کے ساتھ پچھلے معاہدوں سے متصادم ہے۔

کچھ عرصہ پہلے، جمہوری قوتوں (SDF) نے الجولانی کے ساتھ، کرد انتظامی اور سیکیورٹی اداروں کے انضمام کے لئے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے، جو زیادہ دیر تک قائم نہیں رہا۔

کرد عناصر، جو شام کے خلاف جنگ کے دوران ہمیشہ امریکہ کے ساتھ اور بشار الاسد کی حکومت کے خلاف تھے، اس حکومت کے گرنے کے بعد، یہ سمجھتے تھے کہ وہ شمال مشرقی شام میں خودمختاری حاصل کر سکیں گے!

امریکی ایلچی نے یہ بھی دعوی کیا کہ "سیاسی حلقوں میں ہونے والی بحثوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام کے عوام کو زیادہ حقیقت پسندانہ اور عملی حل تک پہنچنے کی ضرورت ہے جو ملک کی استحکام میں مددگار ہو"۔

باراک نے کہا کہ "موجودہ مرحلے میں نئے نقطہ نظر کی ضرورت ہے جو اتفاق رائے پر مبنی ہو اور کسی کو نظر انداز کرنے سے گریز کرے، اور قومی اتحاد صرف انتہائی مرکزیت کے ذریعے حاصل نہیں ہوگا"۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ترجمہ: ابو فروہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

110

لیبلز

آپ کا تبصرہ

You are replying to: .
captcha